(  ہمارے پیارے نبی ﷺ     (  مکی دور

                    بسم الله الرحمان الرحيم 

         ہمارے پیارے نبی      (  مکی دور. )

ہمارے پیارے نبی کا نام حضرت محمد صل اللہ علیہ وسلم ہے ۔ آپ ﷺ عرب ملک کے مکہ شہر میں واقعہ فیل کے لگ بھگ پچپن دن بعد  12   ربیع الاول بمطابق 22 اپریل  571 ء کو قریش خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپ ﷺکے والد محترم کا نام عبد اللہ اور والدہ محترمہ کا نام حضرت آمنہ ہے ۔ دادا کا نام عبد المطلب  اور نانا کا نام  وہب ہے ۔ آپ  ﷺ کے پردادا کا نام   ہاشم بن عبد مناف ہے۔ اسی نسبت سے آپ ﷺ کا خاندان بنو ہاشم کہلاتا ہے ۔

آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی والد محترم کا انتقال ہو گیا ۔سب سے پہلے آپﷺ کی والدہ ماجدہ نے دودھ پلایا ۔ اس کے بعد ابو لہب کی باندی ثوبیہ نے بھی دودھ پلایا ۔ اس زمانے میں ایک رواج تھا کہ بڑے لوگ اپنے بچوں کو دودھ پلوانے اور پلنے بڑھنے کے لئے دیہات میں بھیج دیتے تھے تاکہ ان کی صحت اچھی اور زبان فصیح ہو ۔یہ خوش نصیبی دائی حلیمہ کے حصے میں آئی  جو بنو سعد قبیلے سے تھِیں ۔ انہوں نے  آپﷺ کو دودھ پلایا اور آپ چھ برس تک انہیں کے پاس پرورش پاتے رہے ۔

آپﷺ کی والدہ محترمہ آپ کو لیکر مدینہ میں کسی سبب سے آئیں اور واپسی میں بیمار پڑ گئیں اور ‘ ابوا  ‘ کے مقام پر پہنچ کر وفات پا گئیں اور یہیں دفن ہوئیں  ۔  اس وقت آپ ﷺ کی عمر چھ برس کی تھی ۔  حضرت آمنہ کے ساتھ ان کی  باندی ام ایمن تھیں ۔ وہ آپﷺ کو لیکر مکہ آئیں ۔

پھر آپ ﷺکے  دادا عبد المطلب بڑے ہی محبت و پیار سے آپ کی پرورش کی ۔ آپ ﷺ کی عمر جب آٹھ سال کی تھی تو دادا عبد المطلب کا بھی انتقال ہو گیا ۔موت سے پہلے دادا جان نے آپ ﷺ کو چچا ابو طالب کے سپرد کیا ۔

ابو طالب ایک تاجر   تھے ۔ ابو طالب اور آپ ﷺکے  والد محترم ایک ہی ماں سے تھے ۔انہوں نے اپنے بھتیجے کو بڑے ہی لاڈ و پیار سے پالا ۔عرب میں اس وقت پڑھنے لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لئے آپ ﷺکو بھی  پڑھنے لکھنے کی تعلیم نہیں دی گئ۔ البتہ اپنے چچا کے ساتھ ملکر کاموں کا تجربہ سیکھتے رہے

عرب کے لوگ ہمیشہ لڑتے جھگڑتے رہتے  تھے ۔بات بات پر آپس میں تلواریں نکل جاتی تھیں۔ اسی قسم کی ایک لڑائی کا نام  فجار  ہے ۔یہ لڑائی قریش اور قیس کے قبیلوں میں ہوئی تھی ۔آپﷺ اس میں شریک تو تھے مگر کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا ۔ پھر بھی نبی ہونے کے بعد اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں شریک نہ ہوتا تو اچھا تھا ۔

لڑائی کے برے نتائج کو دیکھکر چند امن پسند  لوگ ایک ساتھ بیٹھے اور یہ عہد کیا کہ ۔۔۔ ہم مظلوموں کی مدد کریں گے ، حقدار کو اس کا حق دلائیں گے ،مسافروں کی حفاظت کریں گے ، بد امنی کو دور کریں گے  اور محتاجوں کے کام آئیں گے ۔ اس معاہدہ میں ہمارے رسول ﷺ بھی شریک تھے ۔اور بعد کو فرمایا کرتے تھے کہ ویسا عہد اگر آج بھی کوئی کرے تو میں اس کے ساتھ ہوں ۔ تاریخ میں اس عہد کا نام ‘ حلف الفضول ‘ ہے ۔

سیلاب کے نقصان سے بچنے کے لئے کعبہ کی تعمیر نو کا فیصلہ کیا گیا اور قریش کے سبھی خاندان تعمیر میں لگ گئے ۔ جب دیوار وہاں تک اونچا ہو گیا جہاں حجر اسود لگا تھا تو ہر قبیلہ یہ چاہتا تھا کہ ہم اکیلے ہی اس مقدس پتھر کو اس کی جگہ پر اٹھا کر رکھیں ۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جھگڑا شروع ہو گیا اور تلواریں نکل گئیں ۔ مگر آپ ﷺنے اس جھگڑے کو اس طرح سلجھایا کہ ایک چادر منگوا کر اس پر پتھر رکھا اور ہر قبیلے کے سردار کو کہا کہ چادر کے سرے کو پکڑ کر اوپر اٹھائیں اور جب اس جگہ پر پہنچ گیا تو آپ ﷺنے اپنے ہاتھوں سے اس کی جگہ پر رکھ دیا ۔ اس طرح ایک بڑی لڑائی ہمارے رسول کی تدبیر سے رک گئی ۔

آپﷺ بچپن سے ہی بڑے سچے تھے کبھی آپ ﷺنے جھوٹ نہیں بولا ۔ سب لوگ آپ ﷺکو صادق کہتے تھے ۔لوگ آپ کی ایمانداری ، خوش معاملگی ، دیانت داری اور امانت داری پر اتنا بھروسہ کرتے تھے کہ بغیر جھجھک کے اپنا سرمایہ آپ ﷺکے سپرد کر دیتے تھے اور اپنا روپیہ پیسہ امانت رکھواتے تھے اور آپﷺ کو ‘امین ‘ کہتے تھے ۔

قریش کا پرانا مشغلہ تجارت تھا ۔ آپ ﷺنے بھی ذریعہ معاش کے طور کے تجارت کو ہی اختیار فرمایا ۔ اور شام اور یمن کے ملکوں کا سفر کیا ۔بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا ایک دولت مند خاتون تھیں اور بیوہ تھیں ۔انہوں نے جب تجارت میں آپﷺ  کی محنت ، ایمانداری اور سچائی کی تعریف سنی تو اپنے تجارت کا سامان آپ ﷺ کے سپرد کیا ۔ آپ ﷺسامان لیکر ملک شام کو گئے ۔ اس تجارت میں بہت نفع ہوا ۔بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺکے کام سے بہت خوش ہوئیں ۔

اس سفر کے کچھ دنوں کے بعد بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺکے پاس نکاح کا پیغام بھیجا ۔ اس وقت آپ ﷺکی عمر 25 برس اور بی بی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 سال تھی اور بیوہ تھیں ۔ اس کے با وجود  آپ ﷺنے اسے قبول کر لیا ۔ دن اور تاریخ مقرر ہونے کے بعد نہایت سادگی اور بے تکلفی کے ساتھ نکاح ہوا ۔آپ دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے ۔ تجارت کا کام اسی طرح چلتا رہا ۔

آپﷺ بچپن سے ہی بہت نیک ، اچھے ،اور ہر برائی سے پاک تھے ۔ بچپن میں اور بچوں کی طرح جھوٹ اور بیہودہ  کھیل کود  سے پاک رہے اور جوان ہوکر بھی ہر برائی سے پاک رہے ۔

سبھی لوگ دین اسلام کو بھلا چکے تھے ۔ ایک اللہ کو چھوڑ کر دوسرے کو ان کی مورتیاں بناکر پوجتے تھے  ۔ کچھ لوگ سورج ، چاند اور ستاروں کو پوجا کرتے تھے ۔ لوگوں کی گمراہی  کی یہ حالت دیکھ کر آپ ﷺ کا دل دکھتا تھا ۔ آپ فکر مند رہا کرتے  تھے ۔ اس لئے حراء نام کی ایک پہاڑی کے غار میں کچھ ستو اور پانی لیکر چلے جاتے ۔ غور و فکر کرتے اور اللہ کی عبادت کرتے ۔

ایک دن اسی غار میں تھے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام جو کہ اللہ کے مخلوق اور ایک  فرشتہ ہیں جنہیں روح الامین  بھی کہا جاتا ہے ،آتے ہیں اور کہتے ہیں ۔” بشارت قبول فرمائیے آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں ۔” اللہ کا پیغام جس کو وحی کہتے ہیں  محمد صل اللہ علیہ وسلم کو سناتے ہیں ۔ پہلی وحی یہ ہے ۔

اقراء باسم ربک الذی خلق    ……..  )آخر تک پانچ آیات(

یہ آیت سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات ہیں ۔ اس وقت آپ  ﷺ کی عمر چالیس برس تھی اورسن عیسوی اگست 610  تھا۔ اس طرح قرآن پاک کا نزول شروع ہو گیا اور آپﷺ اللہ تعالےٰ کی طرف سے نبی بنائے گئے ۔ آپ ﷺ رحمت للعا لمین  [ تمام دنیا کے لئے رحمت ]  اور خاتم النبین [ نبیوں میں سب سے آخر ] بنائے گئے ۔

جس دین کو لیکر ہمارے حضور ﷺ بھیجے گئے اس کا نام اسلام ہے یہی دین  سبھی نبیوں کا دین رہا ہے ۔ اس کے معنےٰ ہیں  ”  اپنے کو اللہ کے سپرد کر دینا اور اسکی فرمابرداری کرنا ‘   اس کا دوسرا  معنےٰ    ‘ امن ‘ بھی ہوتا ہے ۔ اسلام کو جو قبول کر لیتے ہیں اس کو مسلم کہتے ہیں ۔

اسلام کی پہلی تعلیم  توحید ہے یعنی لا الہ الا اللہ  جس کا مطلب ہوتا ہے ۔۔ کوئی نہیں ہے الہ  سوائے ایک اللہ کے ۔ وہی خالق ہے ، وہی رازق ہے ،وہی مالک ہے ،وہی حاکم ہے ، وہی پالنے والا ہے ، زندگی اور موت وہی دینے والا ہے ، دعائیں سننے والا اور قبول کرنے والا وہی ہے ۔اس لئے عبادت کرنے کے لائق ایک اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے ۔دوسری تعلیم رسالت ہے یعنی   محمد رسول اللہ   جس کا مطلب ہوتا ہے محمد اللہ کے رسول ہیں ۔ یعنی یہ توحید کا پیغام دینے والے محمد ﷺ اپنی طرف سے یہ پیغام نہیں دے رہے ہیں بلکہ اللہ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہیں ۔ اس لئے محمد ﷺ تمہیں جو کچھ دیں اسے لےلو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاوُ ۔ یہی دونوں جزء  لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ   کو دل سے اقرار کرنے اور مان لینے کا نام  ایمان ہے ۔

سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں  حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا  جو آپ ﷺ کی غمگسار   بیوی تھیں  ۔ پھر حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ جو آپ ﷺ کے دوست تھے  ، حضرت علی رضی اللہ عنہ  جو آپ ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے اور کمسن تھے  اور حضرت زید بن حارث  رضی اللہ عنہ جو آپ ﷺکے چہیتے غلام تھے ۔ تین برس تک یوں ہی چھپ چھپ کر خاموشی سے دین حق کا سبق پڑھاتے رہے ۔جو نیک اور سمجھدار ہوتے قبول کر لیتے اور جو نا سمجھ اور ہٹ دھرم ہوتے وہ نہ مانتے بلکہ الٹے دشمن ہو جاتے ۔

تین برس کے بعد اللہ تعالےٰ نے حکم دیا اب اعلانیہ دعوت کا کام کریں اور اپنے خاندان والوں کی اصلاح کریں ۔

آپﷺ ایک پہاڑی پر  جس کا نام کوہ صفاءہے کھڑے ہو کر آواز دی ۔لوگ دوڑ پڑے ۔ پوچھا کیا ہے ؟ آپ ﷺنے ہمیں  کیوں بلایا ہے ؟  جواب میں پہلے  آپ ﷺنے ان سے پوچھا  اگر میں آپ  لوگوں سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے آپ  کے دشمن کا ایک لشکر آرہا ہے ۔ تو کیا آپ لوگ  اس بات کا یقین کر لیں گے ؟  سب نے کہا ۔  ہاں  بیشک ۔ کیوں کہ ہم نے آپﷺ کو ہمیشہ سچ بولتے دیکھا ہے جھوٹ بولتےکبھی نہیں دیکھا ۔  آپ ﷺنے فرمایا ۔  تو میں یہ کہتا ہوں کہ آنے والے سخت عذاب سے ڈریئے ۔ مرنے کے بعد پھر اٹھائے جائیںگے اور حساب کتاب ہوگا ۔پھر جزا اور سزا ملے گا ۔ جزا کے طور پر جنت اور سزا کے طور پر جہنم ۔ عذاب سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ  گواہی دیجیئے کہ اللہ تعالےٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ حضرت محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں ۔

یہ سن کر ابولہب جو آپ کا چچا تھا  ، بہت خفا ہوا اور بولا ۔ تم نے یہی سنانے کے لئے ہم سب کو بلایا تھا ۔ یہ کہکر اٹھا اور چلا گیا ۔قریش کے دوسرے سردار بھی خفا ہو کر چلے گئے ۔

ہمارے رسولﷺ نے ان سرداروں کی خفگی کی پرواہ نہ کی اور اللہ کا پیغام لوگوں کو سناتے رہے ۔ نیک صفت لوگ آپﷺ کی بات کو قبول کر لیتے اور شرارت پسند لوگ شرارت پر اتر جاتے اور آپﷺ کو طرح طرح سے ستانے لگتے ۔اور آپﷺ کو شاعر ، پاگل ، دیوانہ ،مجنون  ، جادوگر  وغیرہ مشہور کرتے ۔ ولید بن مغیرہ کی صدارت میں ایک میٹنگ کر یہ بات طے کیا کہ اگر ہم لوگ ان کو کئی کئی القابوں سے پکاریں گے تو ہماری بات جھوٹ ثابت ہوگی ۔اس لئے ایک بات طے کر لیں ۔ ان کے بارے میں ہم لوگ یہ کہیں کہ یہ جادوگر ہیں جو اپنی باتوں میں لوگوں کو موہ لیتے ہیں اور بھائی بھائی میں ، باپ بیٹا میں ، ماں بیٹا میں جدائی ڈال دیتے ہیں ۔ لیکن اللہ کو ایسا کرنا ہوا کہ انہیں کے ذریعہ ملک کے اندر اور ملک کے باہر آپ کی شہرت ہوگئی ۔ اور آپﷺ اپنا کام کرتے رہے .

ایک دن کفار اکٹھے ہوئے اور ساتھ مل کر ابو طالب کے پاس آئے ۔ بولے بھتیجے کو روکیئے۔ سارے خاندان کی عزت خاک میں مل رہی ہے ۔ ہما رے آپ کے معبود جھٹلائے جا رہے ہیں ۔آپ کے بھتیجے کا کہنا ہے کہ ہم سب بیوقوف ہیں ، نادان ہیں ، لات و عزیٰ کی پوجا کرتے ہیں ۔ عبادت کے لائق صرف اللہ کی ذات ہے ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ۔ ہم لوگ آپ سے کہتے ہیں لات و منات کا واسطہ ان کو سمجھائیے ۔ اب پانی سر سے اونچا ہو رہا ہے ۔نہیں تو میدان میں آجائیے ۔ہم دونوں میں ایک کا فیصلہ ہو جائے ۔ ابو طالب نے کسی طرح پیچھا چھڑایا ۔

کچھ دنوں بعد مخالفین پھر آئے ۔ دھمکی دیا ۔ جان کا خوف دلایا ۔ چچا سوچ میں پڑ گئے ۔ اب کیا کریں ۔ بھتیجے کو بلایا اور بولے ۔بیٹا مجھ بوڑھے پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ اٹھا نہ سکوں ۔ ان کی یہ بات سن کر آپﷺ کے آنکھوں میں آنسو بھر آئے ۔ پھر فرمایا  چچا جان  خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے ایک ہا تھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند رکھدیں تب بھی میں اپنے کام سے باز نہ آوُں گا ۔  یا تو اللہ اپنے دین کو غالب کرے گا یا میں اسی راہ میں مر کھپ جاوُں گا  ۔ آپﷺ کی یہ مضبوط  ا و ر  پکا ارادہ دیکھکر چچا نے کہا بھتیجے جاوُ اپنا کام جاری رکھو۔ یہ تمہارا کچھ بھی نہیں کر سکتے ۔آپﷺ اپنا کام اور تیزی سے کرنا شروع کئے ۔

قریش کے سرداروں نے دیکھا کہ دھمکی سے کام نہیں چلا تو اب پھسلا کر اور لالچ دے کر کام چلائیں ۔عتبہ نامی کافر کے اگوآئی میں چلے ۔ اس نے   کہا ۔ اے محمد قوم  میں پھوٹ ڈالنے سے کیا فائدہ ؟  اگر تم مکہ کی سرداری چاہتے ہو تو یہ بھی حاضر ہے ،اگر کسی بڑے گھرانے میں یا کسی حسین و جمیل عورت سے شادی کرنا چاہتے ہو  تو یہ بھی ہو سکتا ہے ، اگر دولت چاہتے ہے تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں اتنا دولت جمع کر کے دیں گے کہ  تمہارے برابر کوئی امیر نہ ہوگا  ، اگر سرداری چاہتے ہو تو یہ بھی ہو سکتا ہے بلکہ بادشاہ بنا دیں گے ۔ مگر تم اس کام سے باز آجاوُ ۔ لوگوں سے نہ کہو کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اس کے جواب میں آپ ﷺنے حٰم السجدہ کی آیات پڑھنی شروع کیں ۔ ان آیتوں کا سننا تھا کہ اس کا دل دہل گیا ۔ اپنے لوگوں کے پاس آکر کہا ۔ میری رائے ہے کہ تم ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو ۔ مگر قریش نے اس کی بات نہ مانی اور ضد پر اڑے رہے ۔آپ اپنا کام کرتے رہے اور لوگوں کو سمجھاتے رہے ۔ کوئی مان لیتا کوئی چپ رہتا کوئی جھڑک دیتا ۔کچھ لوگ ظلم کرنے میں اور آگے بڑھ گئے ۔

مسلمانوں پر جب ظلم زیادہ بڑھ گئیں تو نبوت کے پانچویں سال حضرت محمدﷺ کی اجازت سے کچھ مسلمان حبشہ کو روانہ ہوگئے ۔ مگر کافروں نے وہاں بھی پیچھا نہیں چھوڑا  ۔ اور نجاشی سے جو کہ حبش کا بادشاہ تھا مسلمانوں کی برائی کی اور واپس بھیجنے کو کہا ۔ نجاشی نے سبھی مسلمانوں کو بلایا اور کچھ سوالات کئے ۔ اس کے جواب میں حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے بھرے دربار میں بڑی زوردار اور پر اثر تقریر کی ۔ نجاشی پر اس کا بڑا اثر ہوا اور مسلمانوں سے کہا آپ لوگ یہاں اطمینان سے رہیئے ۔ کافر اپنا سا منھ لیکر رہ گئے ۔

کافروں کو بڑا غصہ آرہا تھا کہ دین اسلام پھیلتا ہی جا رہا ہے اور ان کے گروہ سے نکل نکل کر اس میں داخل ہوتے جارہے ہیں ۔ بنو ہاشم کے وے لوگ جو مسلمان ہو گئے اور وے بھی جو مسلمان نہیں ہوئے ہیں سب لوگ محمدﷺ کا ساتھ دے رہے ہیں اور ان کی ایک نہیں چلتی ۔اس لئے ان کا غصہ انتہا کو پہنچ گیا ۔ انہوں نے بنو ہاشم کو  بائیکاٹ کر دینے کا فیصلہ کر لیا کہ یہ لوگ اپنے باپ دادا کہ دین سے ہٹ گئے ہیں ، گمراہ ہو گئے ہیں ۔  بائیکاٹ کرنے کا معاہدہ لکھکر کعبہ کے دروازہ پر لٹکا دیا ۔ ابو طالب خاندان کے سبھی لوگوں کو لیکر ایک گھاٹی میں چلے گئے جو شعب ابی طالب کہلاتا ہے ۔یہاں بہت تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھانی پڑی ۔تین سال اسی طرح گزر گئے ۔آخر کچھ لوگوں کو رحم آیا اور اس معاہدہ کو توڑ دیا ۔

اس گھاٹی سے نکل کر گھر میں آئے کچھ ہی دن گزرا تھا کہ آپﷺ کے پیارے چچا ابوطالب نے وفات پائی ۔ ابھی اس غم کو چند ہی روز ہوئے تھے کہ آپﷺ کی پیاری اور غم گسار بیوی حضرت خدیجہ بھی اس دنیا سے کوچ کر گئیں ۔یہ زمانہ آپ پر بہت سخت گزرا ۔ یہ نبوت کے دسویں سال کا واقعہ ہے ۔ اس سال کو عام الحزن یعنی غموں کا سال بھی کہا جاتا ہے ۔

اس کے بعد مسلمانوں پر مصیبت کی بارش ہو نے لگی ۔ طائف جو مکہ کے جنوب مشرق میں واقع ہے ،بڑا ہی سبز و شاداب شہر تھا۔ امیروں کی بستی تھی ۔ آپﷺ وہاں گئے کہ شاید کوئ میری بات سننے والا مل جائے ۔ آپ زید بن حارث کو لیکر وہاں گئے اور دین حق کی دعوت دی ۔ مگر افسوس کہ ان میں سے ایک نے بھی اسے قبول نہیں کیا ۔ اس کے بجائے آپ کا مذاق اڑایا ۔  بدمعاش و لفنگے بچے اور بد تمیز لوگوں کو پیچھے لگا دیا ۔ اور وے آپﷺ پر آوازیں کسنے کے ساتھ ساتھ پتھر بھی برسائے ۔ جس سے آ پﷺ لہو لہان ہو گئے ۔ آپﷺ تھک کر بیٹھ جاتے ۔ آخر ایک باغ میں پناہ لی ۔اس وقت اللہ کا ایک فرشتہ نظر آیا ۔ جس نے اللہ کا پیغام سنایا  اور کہا کہ اے اللہ کے رسولﷺ  اگر آپ کہیں تو طائف والوں پر ان پہاڑوں کو دے مارا جائے اور وے کچل کر رہ جائیں ۔ مگر آپﷺ نے امت پر مہربان ہوکر عرض کیا کہ خدایا ایسا نہ کر ۔ شاید کہ ان کی نسل  سے کوئی تیرا ماننے والا پیدا ہو ۔

طائف کے سفر کی اذیت آپﷺ کے مضبوط ارادے کو ہلا نہ سکا ۔اور اب یہ قصد کیا کہ ہر قبیلے میں اللہ کا پیام سنائیں ۔ا سکے لئے مکہ میں حج کا قدرتی موقع موجود تھا  جسمیں عرب کے گوشے گوشے سے لوگ آتے ۔ آپ ہر قبیلہ میں گھوم  گھوم کر وعظ کہنا اور اللہ کی آیتیں سنانی شروع کر دی ۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ پورے ملک میں اسلام کی آواز پھیل گئی۔

اس دین کی پیروی جس طرح انسانوں کے لئے ضروری ہے اسی طرح جنوں کے لئے بھی ضروری ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب آنحضرتﷺ اپنے دعوتی دورے پر عرب کے ایک مشہور میلے عکاظ تشریف لے جا رہے تھے تو راستے میں  ایک رات نخلہ کے  مقام پر قیام کیا ۔ صبح کے وقت آنحضرتﷺ اپنے چند صحابہ کے ساتھ نماز میں مصروف تھے اور قرآن کی تلاوت فرما رہے تھے ۔ جنوں کی ایک جماعت ادھر سے گزری اور  قرآن سنا ۔ اس کا ذکر سورہ احقاف میں آیا ہے۔

مکہ سے ساڑھے چار سو کیلو میٹر شمال مشرق میں شہر یثرب کے رہنے والے دو مشہور  قبیلے تھے ۔ اوس اور خزرج ۔ وہاں یہودی بھی رہتے تھے ۔انہیں سے ان کی کتابوں کے ذریعہ ایک پیغمبر کے آنے کی خبر سن رکھی تھی ۔ ان کے کچھ لوگ مکہ آئے ۔ آپ ان ے ملے اور اللہ کا کلام سنایا ۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کو دیکھکر کہا یہ تو وہی پیغمبر معلوم ہوتے ہیں ۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہودی ہم سے بازی لے جائیں ۔سب نے ایک ساتھ اسلام قبول کر لیا ۔ یہ چھ آدمی تھے ۔

اللہ تعالےٰ نے غیب کا مشاہدہ کرانے کے لئے آپﷺ کو آسمان پر بلایا ۔ یہ آسمانی سفر ایک بڑا معجزہ ہے ۔ اسے معراج کہا جاتا ہے اس کا دوسرا نام اسراء بھی ہے ۔ اس سفر کی سواری کا نام براق تھا ۔یہ سفر مکہ سے بیت المقدس اور پھر یہاں سے آسمان پر ہوا تھا ۔جہاں اللہ تعالےٰ سے ملاقات ہوئی ۔ یہ واقعہ ہجرت سے لگ بھگ ڈیڑھ سال قبل کا ہے ۔

کفار مکہ پر اتمام حجت کرنے کے لئے آنحضرتﷺ کے معجزات میں سے ایک بڑا معجزہ شق القمر  یعنی چاند کا دو ٹکڑا ہونا ہے ۔

دوسرے سال یثرب سے بارہ آدمی آئے اور عقبہ کے مقام پر آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جو بیعت  عقبہ اول کے نام سے مشہور ہے ـ یعنی کہ ہم خدائے واحد کی عبادت کیا کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہیں کریں گےـ ہم چوری اور زنا نہیں کریں گے ـ ہم اپنی اولادکو قتل نہیں کریں گے ـ ہم کسی پر پر جھوٹی تہمت نہیں لگائیں گے اور نہ کسی کی چغلی کریں گے ـ ہم نبیﷺ کی اطاعت ہر اچھی بات میں کریں گے ـ

اس کے بعد حضور ﷺسے عرض کیا کہ کسی کو ہمارے یہاں  بھیجیں تاکہ وہ جاکر وعظ کرے ـ آپ ﷺنے اس کام کے لئے مصعب بن عمیر کو بھیجے جو یثرب میں جاکر لوگوں کے گھروں میں گھوم گھوم کر اسلام کاوعظ کہنا شروع کئے ـ جس سے اکثر گھرانے مسلمان ہو گئے ـ

                     اگلے سال حج کا  زمانہ آیا  تو  یثرب سے لوگ آنحضرت سے ملنے آئے جو مسلمان ہو چکے تھےـ عقبہ کے مقام پر رات کی تاریکی میں  ملاقات کی ـ اور  

رسول للہ صل اللہ علیہ وسلم  کو اپنے شہر یثرب  آنے کی دعوت دی ـ حضرت عباس جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے مگر حمایت کیا کرتے تھےـ انہوں نے کہا ـ تمہیں معلوم ہے کہ قریش مکہ محمدﷺ کے جانی دشمن ہیں ـ اگر تم ان سے کوئی عہد کیا تو پہلے سمجھ لینا یہ نازک اور مشکل کام ہے ـ محمدﷺ سے عہد کرنا لڑائیوں کی دعوت دینا ہے ـ جو کچھ کرو سوچ سمجھ کر کرو ورنہ بہتر ہے کہ کچھ بھی نہ کرو ـ جواب میں ایک سردار نے کہا ـ ہم لوگ تلوار کی گود میں پلے ہیں ـ

نبی صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  ـ  کیا آپ لوگ دین حق کی اشاعت میں میری پوری  مدد کریں گے  ؟ جب آپ کےشہر میں جا بسوں کیا آپ لوگ میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت اپنے اہل و عیال کے مانند کریں گے ؟ ایمان والوں نے عرض کیا ـ اس کا معاوضہ کیا ملے گا؟  نبی نے فرمایا جنت ـ ایمان والوں نے عرض کیا ـ اے اللہ کے رسول  ! ہمیں تسلی فرما دیں کہ حضور ﷺہم لوگوں کوکبھی نہ چھوڑیں گے ۔  اسوقت بھی نہیں جب آپﷺ کو غلبہ حاصل ہو جائے ۔

نبی ﷺنے فرمایا ـ میرا جینا اور مرنا آپ لوگوں کے ساتھ ہوگا ـ اس فقرے کا سننا تھا کہ سرور اور نشاط کے ساتھ جان نثاری کی بیعت کرنے لگے ـ اس کے بعد اس میں سے بارہ نقیب چنے ـ ان کے نام خود انہی لوگوں نے چن کر بتائے تھے ـ ان کے سپرد یہ کام کیا کہ اپنے قبیلے میں لوگوں کو دین کی باتیں بتلائیں ـ قریش کو اس کی بھنک لگی تو کھلبلی مچ گئی ـ جب تک وے قیام گاہ پر پہنچتے وے نکل چکے تھے ـ

یثرب میں مسلمانوں کو امن کی جگہ مل گئی تھی ـ اس لئے آنحضرتﷺ نےمسلمانوں کو عام اجازت دے دی کہ وے مدینہ چلے جائیں ـ مدینہ میں مسلمانوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی تھی اور وے ایک بڑی طاقت بنتے جا رہے تھے ـ اب قریش کی نیند اڑ گئی ـ ان کے سر پر بوکھلاہٹ سوار ہو گئی کہ کس طرح اس طاقت کو کچلا جائے ـ

انہوں نے ایک اہم میٹنگ بلائی ـ اس میں ہر قبیلے کے بڑے بڑے لوگ جمع ہوئے ـ ابوجہل کے مشورے سے سبھی نے ملکر یہ متفقہ فیصلہ لیا کہ سبھی قبیلہ کا ایک ایک نوجوان ایک رات کو جمع ہوں اور محمد ﷺکے گھر کو گھیر کر ان  پر ایک ساتھ حملہ کیا جائے اور قتل کر دیا جائے ـ

اللہ نے اس کی خبر آپ کو دے دی ـ آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے ـ ان کو بتلایا کہ مکہ چھوڑنے  کی اجازت مل چکی ہے ـ انہوں نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی ـ طے یہ ہوا کہ جس رات قریش کے جوان اپنے ناپاک ارادے کو عملی جامہ پہناننے کے لئے مقرر کیا ہے اسی رات کو سفر شروع کیا جائے ـ

حضرت علی رضی اللہ عنہ    کو ان کی جو آپﷺ کو قتل کرنے کے درپے تھے،  کی امانتیں سپرد کیں اور ہدایت دی کہ صبح اٹھکر لوگوں کی امانتیں ان کو واپس کر کے  وہ بھی مدینہ آجائیں ـ

وے نوجوان جنہیں ہدایت نہیں مل پائی تھی اور اپنے باپ دادا کے دین کو ہی صحیح سمجھ رہے تھے، آپﷺ کےگھر کا محاصرہ کر لیا تاکہ آپﷺ کہیں بھاگ نہ پائیں اور گھر سے باہر نکلتے ہی ان پر حملہ بول دیں اور ہمیشہ کے لئے انہیں ختم کر دیں ـ

اللہ کی حفاظت میں اللہ کے رسولﷺ اپنے گھر سے باہرنکلے اور  ان پر خاک ڈالتے ہوئے وہاں سےصاف نکل گئے ـکسی کو ان پر نظر نہ پڑی ـ

آپ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ر کے گھر پہنچے اور وہاں سے آپ دونوں شب کی تاریکی میں مکہ سے مدینہ کے لئے ہجرت کو نکل گئے ـ یہ 9  ستمبر     622ء کا واقعہ ہے ـ روانگی کے وقت آپ کعبہ پر وداعی نگاہ ڈالی اور فرمایا ـ  مکہ!  تو مجھکو تمام دنیا سے عزیز ہو لیکن تیرے فرزند مجھ کو رہنے نہیں دیتے ـ

وہاں سے چلکر ثور پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی ـ اس غار میں تین دن تک رہے ـ اس دوران حضرت ابو بکر  رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے عبد اللہ مکہ کی خبر آپﷺ  تک پہنچاتے اور ان کے غلام بکریوں کو چراتے ہوئے وہاں لے آتے ـ آپﷺ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ دودھ پی لیتے ـ

ادھر رات بھر اپنے باپ دادا کے دین کو ہی صحیح سمجھنے والے  نوجوان آپ ﷺ  کے مکان کا پہرہ دیتے رہے ـ صبح  کیا دیکھتے ہیں  کہ مکان سے  

پیارے رسولﷺ کے بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ   نکل رہے ہیں ـ بہت کھسیائے ـ  یہ  کیا ؟   ہم کو بڑا دھوکہ ہوا ـ  بڑی کھلبلی مچ گئی ـ لوگ ڈھونڈنے نکل پڑے ـ  سو اونٹ انعام مقرر ہوا ـ  ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس غار کے دہانے تک بھی پہنچ گئے ـ حضرت ابو بکر گھبراکر بولے ـ یا رسول اللہ ﷺ  ! دشمن اتنے قریب آگئے ہیں کہ اگر وے اپنے پاؤں کی طرف دیکھ لیں تو ہمیں دیکھ لیں گے ـ لیکن حضور صل اللہ علیہ وسلم کے اطمینان کا حال یہ تھا کہ فرمایا ـ گھبرائیئے نہیں ـ اللہ ہمارے ساتھ ہے ـ

چوتھے دن آپ دونوں غار سے نکلے اور روانہ ہوئے ـ قریش نے اشتہار دے رکھا تھا کہ جو کوئی بھی محمدﷺ کو پکڑ کر لا ئے گا اس کو سو اونٹ انعام دیا جائے گا ـ سراقہ بن جعشم  جو مکہ کا ایک خوبصورت سپاہی تھا،  انعام کی لالچ میں ہتھیار سے لیس گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا ـ ٹھیک اس وقت اس چٹان کے پاس پہنچا جب آپﷺ تھوڑی دیر آرام کر وہاں سےروانہ ہو رہے تھے ـ اس نے دیکھ لیا  اور چاہا کہ گھوڑا دوڑا کر نزدیک پہنچ جائے لیکن گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور گر پڑا ۔ وہ اٹھا اور دوبارہ گھوڑا دوڑایا ۔ اب گھوڑے کے پاوُ ں گھٹنوں تک  زمین میں دھنس گئَے ۔ وہ خوفزدہ ہوگیا  اور ہتھیار ڈال دیا ۔   آنحضرت ﷺ سے معافی  کی درخواست کی ۔ آنحضرت ﷺ  نے اسے معاف کر دیا  ۔

 یثرب سے   5 کیلو میٹر  پہلے ایک چھوٹی سی  آبادی تھی جس کو قبا ء کہتے ہیں ۔  یہاں کے کئی معزز گھرانے مسلمان ہو چکے تھے ۔ یہاں قیام کئے   یہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ  بھی پہنچ گئے ۔ اسی قیام کے دوران حضورﷺ نے اپنے ہاتھ سے ایک چھوٹی سی مسجد کی بنیاد  ڈالی ۔ جس کا نام مسجد قبا ءہے

اس کے بعد آپ ﷺ یثرب کا رخ کئے ۔ یہ جمعہ کا دن تھا ۔ راستے میں بنی سالم کے محلے میں نماز کا وقت آگیا ۔ جمعہ کی نماز پڑھی گئی ۔ آنحضرتﷺ کی امامت میں جمعہ کی پہلی نماز تھی ۔حالاں کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جو دین سکھانے پہلے ہی یثرب آچکے تھے کی امامت میں جمعہ کی نماز ہو رہی تھی ۔قبا سے یثرب تک کے راستے میں ہر قبیلے کے معزز لوگ استقبال کر رہے تھے ۔ یثرب میں سارے لوگ پورے جوش و خروش سے آپﷺ کا استقبال کر رہے تھے ۔ آپ اونٹنی پر سوار تھے ۔ ہر کوئی چاہ رہا تھا کہ میزبانی کا شرف اسے حاصل ہو۔ ہر کوئی اونٹنی کو روکنا چاہ رہا تھا ۔ آپ ﷺنے فرمایا ۔ اس کو چھوڑ دو ۔ جہاں اللہ کا حکم ہوگا وہاں جاکر خود ٹہریگی  ۔ حضرت ایوب کے گھر کے پاس ر کی اور بیٹھ گئی ۔ حضرت ایوب رضی اللہ عنہ کی خوشی کا کیا کہنا ۔

مدینہ عربی میں شہر کو کہتے ہیں ۔ حضرت محمدﷺ کے یثرب تشریف لے آنے کے بعد یثرب کو مدینۃ النبی یعنی نبی کا شہر کہا جانے لگا   اور اس وقت سے یثرب کا نام مدینہ ہوگیا ۔

مدینہ کے مسلمانوں نے اسلام کی اور مکہ سے آئے ہوئے مسلمانوں کی جس طرح خدمت کی اس لحاظ سے اللہ تعالےٰ نے ان کا نام انصار یعنی مددگار رکھا ۔ اور جو اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے ان کو مہاجر کہا گیا ۔ انصار نے مہاجروں کو اپنے گھروں پر اتارا   اور ان کو اپنی جائداد میں بھی حصہ دیا اور کاروبار میں شریک کیا ۔

آپﷺ جہاں ٹہرے ہوئَے تھے  اسی سے ملی ہوئی دو یتیم بچوں کی زمین تھی ۔ آپ ﷺنے اسے مسجد کے لئے پسند کیا ۔ دونوں بچوں نے اسے مفت دینی چاہی مگر آپ ﷺنے مفت لینا  پسند نہیں کیا ۔قیمت ادا کر اس زمین کو  لی گئی اور مسجد کی تعمیر کی گئی یہی مسجد ‘ مسجد نبوی ‘  کہلاتی ہے ۔

ہجرت کے سال سے ہجری سن کی شروعات ہوئی ۔ حالاں کہ اس کا تعین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہکے دور خلافت میں ہوا۔ ہجرت سے پہلے کے دور کو مکی دور کہا جاتا ہے جوکہ تیرہ سال کے قریب ہے  اور ہجرت کے بعد سے وفات  )632ء( تک کے دور کو مدنی دور کہا جاتا ہے جو دس سال کے قریب ہے ۔مکی دور کو بھی  چار نمایاں ادوار میں منقسم کیا جاتا ہے ۔ پہلا دور  آغاز بعثت سے لیکر اعلان نبوت تک ۔ تقریبا Aتین سال ۔ دوسرا دور  اعلان نبوت سے لیکر ظلم وستم کے آغاز تک ۔ تقریباA دو سال ۔ تیسرا دور آغاز فتنہ ) پانچ نبوی (سے لیکر ابوطالب و حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے وفات تک ۔ تقریباA پانچ سال ۔چوتھا دور ۱۰ نبوی سے لیکر ۱۳ نبوی  )ہجرت (تک لگ بھگ تین سال ۔*****           

          تاریخ اشاعت  ۲۹ نومبر ۲۰۱۸          

Post a Comment